بہترین ٹپس اور فارمولے

چھے 6 مہینے کی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر سعودیہ نوکری (Jobe) پر جانے والے مرد کی کہانی

چھے 6 مہینے کی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر سعودیہ نوکری (Jobe) پر جانے والے مرد کی کہانی

ساحل جو کہ ایک دن سعودی عرب کے ایک 5 اسٹار ہوٹل میں ڈینر کے لیے گیا تو اس کی ملاقات ایک انڈین لڑکے سے ہوئی ، ان دونوں کے درمیان بات چیت ہونے لگی تبھی ان دونوں کی آپس میں ایک دوسرے سے دوستی ہو گئی اور پھر وہ لوگ ہفتے میں ایک مرتبہ اسی ہوٹل میں پارٹی رکھتے اور دونوں کی اسی بہانے ایک دوسرے سے ملاقات بھی ہو جاتیں ۔

چنانچہ پھر وہ شخص چند مہینوں بعد غائب ہو گیا ادھر ساحل اس سے ملاقات کے لیے بہت پریشان رہا لیکن پھر وہ لڑکا ساحل کو نہیں ملا

تقریباً ایک سال پورے ہوگئے اور ساحل اپنی عادت کے مطابق اسی ہوٹل میں ڈینر کے لئے گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا دوست "کلیم” (وہی انڈین لڑکا) اس ہوٹل کے ایک کنارے منھ لٹکائے بیٹھا ہے اور اس پر بہت ہی زیادہ مایوسی اور غم چھائی ہوئی ہے۔

جب ساحل نے اپنے دوست کو سالوں بعد دیکھا وہ بھی اتنا مایوس تو اسے رہا نہ گیا اور فوراً اپنے دوست ” کلیم ” کے پاس پہنچا اور اس سے خبر خیریت معلوم کرنے لگا ، ساحل کے سلام کا جواب دینے کے بعد کلیم کی آواز بند ہو گئی اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں مایوسی طاری ہو گئی اور پھر کلیم زارو قطار رونے لگا۔

ساحل اس ماجرے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ اس کا دوست اک تو سالوں بعد دکھا وہ بھی زارو قطار روتا ہوا تو ساحل نے جلدی سے اپنے دوست سے پورا ماجرا پوچھنے لگا ، کلیم نہیں بتا رہا تھا بلکہ اس کے بعد کلیم کا رونا دھونا اور زیادہ ہی بڑھتا چلا گیا لیکن ساحل کے بہت زیادہ اصرار پر اس نے کہا اے میرے بھائی: میرے دوست: سنوں میں تمام باتیں تمہارے سامنے بیان کیے دیتا ہوں۔

در اصل میں نے آج سے 4/ سال پہلے شادی کی تھی اور شادی کے چھے (6) مہینے کے بعد ہی سعودی عرب کمانے کے واسطے آگیا تھا چونکہ اپنے انڈیا میں اچھے سے پریوار چلانے کے لیے ، گھر کے تمام اخراجات کے لیے مجھے کوئی ایسا کام نہیں مل پا رہا تھا تو میں نے نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر صرف چھے مہینے میں ہی سعودی عرب آگیا اور یہاں کمانے لگا ، گھر والوں کی ہر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن پھر کون جانتا تھا کہ ایسا ہو جائے گا ، ہر چند دنوں بعد اہلیہ گھر آنے کا اصرار کرتیں ، بہت پیاری پیاری باتیں کرتیں بہت اصرار کرتیں کہ آپ کے بنا اچھا نہیں لگ رہا ہے آپ جلدی سے گھر آ جائیں میں تو تنہائی برداشت نہیں کر پا رہی ہوں ، مجھے آپ کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور طرح طرح سے وہ اصرار کرتیں اور محبت بھرے لہجے سے کہتیں کہ آپ گھر آجائیں لیکن میں ٹالتا رہتا تھا اور کہتا رہتا تھا کہ ہاں بس اب آ جاؤں گا بہت جلد آ جاؤں گا ، (اور میں نے گھر کی ہر طرح کی ضروریات کے لیے اپنے ایک جگری دوست ، لنگوٹیا یار کو بول دیا تھا کہ وہ ہمارے ہاں ہر ضرورت کی چیزوں کو دے دیا کرے گا) ماشاءاللہ اس نے دوستی بھی خوب نبھائی اور جیسا میں کہا کرتا تھا وہ اسے پورا پورا ادا کر دیا کرتا تھا ، اور ہماری بچی "لعیبہ” چونکہ میں صرف چھے مہینے میں ہی سعودی عرب آ گیا تھا تو وہ نہیں جانتی تھی کہ میں اس کا والد ہوں بلکہ میری بچی لعیبہ میرے دوست "رقیب” کو اپنا والد سمجھتی تھی وہ ("رقیب”) چونکہ ہر طرح کی ضرورت کے وقت ہمارے گھر پہنچ جایا کرتا تھا جس کی اجازت میں نے اسے دے رکھی تھی ۔

کلیم کہنے لگا: ساحل بھائی در اصل جب میں آپ سے بچھڑا تھا اور آپ سے نہ ہی ملاقات کر سکا تھا اور نہ کال یا بات کر سکا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دن میرے پاس میرے دوست رقیب کی کال آئی اس نے مجھ سے کہا کہ آپ جلدی سے گھر آ جائیں یہاں حالات سازگار نہیں ہے میں نے رقیب سے بہت اصرار کیا کہ پہلے آپ بتائیں تو صحیح ، آخر بات کیا ہے؟ تو اس نے کہا ساری باتیں گھر میں ہی ہو جائیں گیں آپ پہلے گھر تشریف لائیں ، تو ان کے اصرار پر میں جلدی سے گھر کے لئے روانہ ہو گیا تو میں جب گھر پہنچا تو چونکہ یہ عرصہ تین سال کا تھا یعنی میں تین سال کے بعد گھر پہنچا تھا۔

مجھے دیکھ کر میری ہی بچی (لعیبہ) نہ میرے پاس آ رہی ہے اور نہ ہی مجھے اپنا والد سمجھتی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ میری بیوی صرف مجھ سے سلام عرض کی ، اور میرے قریب بھی نہیں آئی تو میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی اتنے دنوں بعد آنے پر بیوی سے ملاقات کے لیے میں بہت بے چین ہو رہا تھا پھر میں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی، باہوں میں لینا چاہا، میں تو اپنے مگن میں تھا میں تو پیار و محبت کی باتیں کر رہا تھا ، مجھے کیا پتہ تھا کہ میری بیوی اب مجھ سے محبت کے بجائے میرے دوست رقیب سے محبت کرنے لگی ہے ، جب جب میں بیوی کے قریب جانا چاہا محبت بھری باتیں کرنا چاہا وہ مجھ سے دور ہو گئی ، میری باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں لی تو میں بہت حیران ہوا اور میں نے جلدی سے اپنے دوست رقیب کو بلایا تو رقیب کے پہنچتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ میری بیوی جلدی سے رقیب کے پاس چلی گئی اور اس کی باہوں میں جا کر رونے لگی اور کہنے لگی کہ مجھے لے کر اپنے گھر چلو میں تمہارے بنا نہیں جی پاؤں گی اب میں اپنے پہلے شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی کیونکہ اب میرے دل میں ان کی محبت کے بجائے تمہاری محبت بھر چکی ہے اب ان کے لئے میرے دل میں بالکل بھی جگہ نہیں ہے ، ساحل بھائی میں نے جب اس منظر کو دیکھا تو میں خود حیران و پریشاں ہو گیا میں نے اپنے دوست رقیب کو دو چار ٹھپڑ بھی رسید کیے لیکن پھر میں رک گیا اور یہ سوچنے لگا کہ گنہگار نہ تو میرا دوست رقیب ہے اور نہ ہی میری بیوی ہے گنہگار تو در اصل میں خود ہوں لیکن پھر میں نے رقیب سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے کیا تم بھی اس کے بنا نہیں رہ پاؤگے اس نے دبی آواز سے کہا ، جی ہاں اب میرا بھی اس کے بنا جینا ممکن نہیں جب میں نے ان دونوں کی محبت کو دیکھا تو میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا اور پھر پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر پتہ نہیں کہاں کہاں بھٹکتا رہا گھر والے سمجھاتے رہے اور پھر چند مہینوں کے بعد ایک نئی زندگی کی شروعات کے لئے سعودی عرب کے لئے روانہ ہو گیا اور مجھے سعودی پہنچے ہوئے آج دو دن ہو چکے ہیں۔

ساحل کہنے لگا: مجھے اس واقعے نے جھنجوڑ دیا اور میں بہت دیر تک سر جھکائے سوچنے پر مجبور ہو گیا اور پھر وہ دن اور آج کا دن میں سبھی سے اس واقعے کو بیان کرتا ہوں اور کہتا ہوں بھائی صاحب اپنی شریک حیات (بیویوں) کو ٹائم دیں ، ہو سکے تو انہیں آپ جہاں رہتے ہیں اپنے ساتھ رکھیں اور اگر اخراجات یا کسی دوسرے عذر کی وجہ سے ساتھ نہیں رکھ سکتے تو چند دنوں میں آپ واپس شریک حیات کے پاس جائیں ، شوہر اور بیوی کے درمیان جو حقوق ہیں اسے بھر پور ادا کریں’ حق زوجیت ادا کریں’ ورنہ پھر وہ دن دور نہیں کہ آپ کے بہت دنوں تک بچھڑے (جدا) رہنے کی وجہ سے آپ کی ہی بیوی کو کسی غیر مرد سے محبت اور پیار ہو جائے اور پھر آپ کو چھوڑ کر وہ (آپ کی بیوی) دوسرے مرد پر فریفتہ ہو جائے۔

اس واقعے سے سبق حاصل کیجیے اور اگر پوسٹ (مضمون) سبق آموز اور اچھی لگی ہو تو برائے مہربانی آگے بھی دوستوں احبابوں اور فرینڈز کو شیئر کر دیجیے۔

حکیم اشرف علی شیخ ، ماہر معدہ و جنسیات مرد و خواتین ، رابطہ نمبر: 9870967815 / 8755152470۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button