طب و حکمت

چھوٹےبچےکاسوال(منی کیا ہوتا ہے؟)

چھوٹےبچےکاسوال(منی کیا ہوتا ہے؟)

ایک استاد: فقہ کے ایک کلاس میں بچوں کو طہارت کے مسائل پڑھا رہا تھا اور اس میں یہ ٹاپک چل رہا تھا کہ غسل کب فرض ہوتا ہے؟ جب استاد نے بتلایا کہ انسان کے جسم سے منی [seminal fluid] خارج ہو جائے تو اس پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔ تو او۔ لیول پاس ایک بچے نے سوال کیا کہ منی کیا ہوتی ہے؟ تو استاد یہاں پر کہتا ہے کہ میں ایک دم بوکھلا گیا کہ بھری کلاس میں اس سوال کا جواب کیسے دوں کیونکہ سوال غیر متوقع تھا ۔

اسی طرح کچھ دن پہلے ایک دوست نے بتلایا کہ ان کی مسز اپنی بچی کو کہ جس کی عمر تیرہ سال تھی، ایک حدیث پڑھا رہی تھیں کہ جس میں کچھ ایسی بات نقل ہوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ محترمہ سے مباشرت [intercourse] کی اور غسل کیا تو بچی نے اپنی والدہ سے سوال کیا کہ مباشرت کیا ہوتا ہے؟ تو یہ سوال والدہ کے لیے غیر متوقع تھا لہذا انہیں بھی سمجھ نہ آئی کہ کیا جواب دیں۔

اسی طرح ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو سات آٹھ سال کی عمر میں ہی نماز کا عادی بنا دیا تھا لیکن ان کی ایک بیٹی دس سال کی عمر میں ہی بالغہ ہو گئی تھی جبکہ بیٹا ابھی صرف تیرہ سال کا تھا اور نابالغ بھی تھا اب بیٹی کو مہینہ (ماہواری) آنے کی وجہ سے نماز نہیں پڑھنی ہوتی تھی تو اس کا بڑا بھائی بار بار کبھی ماں کو اور کبھی باپ کو شکایتیں لگاتا کہ دیکھیں: یہ نماز نہیں پڑھتی ہے ، دیکھیں امی دیکھیں ابا جان: یہ نماز نہیں پڑھتی ہے ۔ اور اس کی بہن اس سے انتہائی درجے میں تنگ آ گئی تھی اور اس سلسلے میں والدین کو بھی کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ کیا کریں کیا جواب دیں اسے کیسے سمجھائیں ۔

اگرچہ کبھی کبھار جھوٹ سے ہی کام چلانا پڑتا تھا کہ اس نے نماز پڑھ لی ہے لیکن کب تک جھوٹ سے کام چلائیں؟

اسی طرح بعض والدین یہ کہتے ہیں کہ ان کے بچے ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ بچے کہاں سے آتے ہیں؟ تو وہ انہیں کیا جواب دیں، کس عمر میں انہیں کتنا جواب دینا چاہیے؟

تو جناب: ان تمام سوالات کا تعلق سیکس ایجوکیشن سے ہے۔ اور ہمارے ہاں اس حوالے سے بچوں کو ایجوکیٹ کرنے کی نہ تو کوئی ترتیب اور نصاب ہے اور نہ ہی کوئی نظم اور طریقہ کار۔ لیکن سب کے بچے سوال کر رہے ہیں اور سب کو جواب بھی مل جاتا ہے، کسی کو کہیں سے اور کسی کو کہیں سے۔ تو اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے دین کا مقصود یہی ہے کہ جیسے ہمیں زندگی کے کسی حصے میں ان چیزوں کے بارے کسی طرح سے علم حاصل ہوا، تو ہمارے آنے والی نسلوں کو بھی اسی طرح سے ہی علم ہو کہ یہ شرم وحیاء کی باتیں ہیں، ان پر پردہ ہی پڑا رہے تو اچھا ہے۔ لیکن پردہ پڑے رہنے کے باوجود ہم سب کو زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ان کا علم ہو جاتا ہے، اگر علم نہ ہو تو نسل انسانی آگے چلے ہی کیسے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کس وقت بچے کو کیا اور کتنا علم دینا ہے، تو اس کی ترتیب بنانا تو کچھ مشکل نہیں ہے، والدین خود سے بھی بنا سکتے ہیں، بس انہیں کچھ ڈائریکشن دینے کی ضرورت ہے۔

تو کہنے کا مقصد اور مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات والدین یا اساتذہ کو ایسے غیر متوقع سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جن میں انہیں سمجھ نہیں آتی کہ ان سوالات کو کیسے ریسپانس کریں۔ تو کم از کم کچھ لٹریچرز ایسا ہونا چاہیے، مہذب زبان میں، کہ جب کسی بچے کا ایسا سوال سامنے آئے تو اسے وہ لٹریچر پڑھنے کو دے دیا جائے۔ یہ تو طے ہے کہ بچے کو گروئنگ ایج میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ جن کا تعلق اس کی بلوغت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ ایک بڑی تعداد دوستوں سے ان سوالات کے جوابات حاصل کر لیتی ہے، کچھ جلد اور کچھ دیر سے، لیکن کچھ تو ہونا چاہیے کہ اگر والدین یا اساتذہ اپنے بچوں یا اولاد کو خود سے کچھ سکھانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس اس کے لیے الفاظ کا چناؤ نہیں ہے، تعبیر کا انتخاب نہیں ہے، تو وہ اسے کسی طرف ریفر تو کر سکیں۔

تو ہمارے ہاں دس یا گیارہ سال کی عمر میں لڑکی اور تیرہ یا چودہ سال کی عمر میں لڑکا بالغ ہو جاتا ہے۔ بالغ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بڑی یا بڑا ہو گیا ہے، اور ان پر نماز روزہ فرض ہو گیا ہے۔ لڑکے کی بلوغت کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اسے احتلام (wet dreams) شروع ہو جائے۔ احتلام کا معنی یہ ہے کہ رات سوتے میں انسان کے جسم سے پیشاب کی نالی کے راستے سے سفید رنگ کا ایک مادہ (fluid) نکلتا ہے اور اسی کو منی (semen) کہتے ہیں۔ اگر یہ جسم یا کپڑوں پر لگ جائے تو ان کو دھو لے اور صبح اٹھنے کے بعد غسل کر لے۔ اور غسل کرنے سے پہلے وہ ناپاکی کی حالت میں ہوتا ہے اور اس ناپاکی کی حالت میں اس کے لیے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا، تلاوت کرنا اور نماز پڑھنا بھی منع ہے۔ البتہ اس حالت میں وہ روزہ رکھ سکتا ہے لیکن بعد میں فجر کی نماز سے پہلے ضرور غسل کر لے۔ اور ناپاکی کی اس حالت میں وہ ذکر و اذکار بھی کر سکتا ہے۔

بعض اوقات گندے اور فحش خیالات کی وجہ سے یا ایسے لٹریچرز پڑھنے سے یا ایسے مناظر دیکھنے سے یا بعض اوقات کوئی مشقت والا کام کرنے سے جسم سے کچھ سفید رنگ کا مادہ خارج ہوتا ہے، اسے مذی (urethral fluid) کہتے ہیں، اس سے غسل فرض نہیں ہوتا ہے۔ بس جسم پر جس جگہ یہ مادہ لگ جائے، اس جگہ کو صاف کر لے اور وضو کر لے تو کافی ہے۔ تو منی اور مذی میں فرق ہے۔ منی کے خارج ہونے سے غسل فرض ہوتا ہے اور یہ ایسا مادہ ہے کہ جسے قرآن مجید نے "ماء دافق” کہا ہے یعنی وہ مادہ جو اچھل کر باہر نکلتا ہے جبکہ مذی اس طرح سے باہر نہیں نکلتی ہے کہ اس کے تو بعض اوقات نکلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔ تو بعض نوجوانوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ مذی کے نکلنے پر بھی غسل کر رہے ہوتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو مشقت میں ڈالا ہوتا ہے۔ تو جناب غسل فرض صرف منی کے اخراج پر ہے صرف مذی نکلنے پر نہیں ۔

حکیم اشرف علی شیخ ، ماہر معدہ و جنسیات مرد و خواتین ۔ واٹس ایپ نمبر: 8755152470
9870967815

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button