طب و حکمت

ایک لڑکی (زینت) اور حکیم جی

ایک لڑکی (زینت) اور حکیم جی

اک لڑکی زینت کی شادی ہوئی تو شوہر بہت خوش مزاج پایا ، ہر وقت چہرے پر ہنسی ، مسکراہٹ ، لڑکا زینت کے ساتھ بہت خوش مزاجی کے ساتھ رہنے لگا ، بیوی سے خوب الفت ، پیار ، محبت اور ہمدردی کا برتاؤ کرتا یعنی میاں ، بیوی آپس میں ایک دوسرے سے بہت خوش تھے ، مگر ساس شوہر کے بالکل برعکس یعنی زینت کے ساتھ ٹھیک برتاؤ نہیں کرتی تھی ، بہت زیادہ روکنے ، ٹوکنے والی ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر پکڑ کرنے والی ، ہر وقت چہرے پر غصہ ، بہو کو تنگ کرنے والی ، طعنے دینے والی اور ہر بات پر ساس کوئی نہ کوئی ایسا پوائنٹ نکال لیتی تھی جس سے بچی (زینت) کا دل دکھتا تھا ۔ زینت بہت تنگ آگئی اور پھر ایسے ہی ایک سال کا عرصہ گزر گیا ۔

چنانچہ جب ایک سال کا عرصہ گزر گیا تو زینت بہت دکھی رہنے لگی اور سوچنے لگی کہ زندگی اتنی تکلیف کے ساتھ کیسے بسر ہوگی؟ اس بوڑھی ساس کی موجودگی میں تو زندگی کبھی خوشی سے گذر ہی نہیں سکتی ۔

تو زینت کے دل میں اس بوڑھی ساس کی نفرت بہت زیادہ بھر گئی اور بچی (زینت) کو اپنی ساس سے نفرت سی ہو گئی اور وہ بڑھیا کو دشمن سمجھنے لگی ، اسے ایک آنکھ بھی بڑھیا (زینت کی ساس) نہیں بھاتی اور وہ ہر وقت یہ سوچتی کہ کاش زمین پھٹ جاتی اور اس بڑھیا کو نگل جاتی اور میری جان اس سے چھوٹ جاتی ۔

چنانچہ چند دنوں کے بعد بڑھیا کی طبیعت خراب ہوگئی تو دوا دارو لانے کا کام بھی زینت کے ہی ذمے تھا ، زینت دوا لینے ایک حکیم جی کے پاس گئی اور حکیم جی سے دوا لیتے وقت اس کے دل میں شیطانی خیال آیا کہ کوئی ایسی دوا بھی لے لی جائے کہ جس سے بڑھیا وفات ہی پا جائے اور میری جان چھڑے ۔

چنانچہ زینت نے حکیم صاحب کے پاس رونا دھونا شروع کر دیا اور کہنے لگی حکیم جی میں بہت دکھی ہوں ، بہت پریشان ہوں ، آپ میری مدد (Help) کریں اور کوئی ایسی دوا آپ مجھے دیں جسے میں بڑھیا (اپنی ساس) کو کھلاؤں تاکہ بڑھیا مر جائے اور میری جان بڑھیا سے چھوٹ جائے غرضیکہ زینت نے حکیم جی سے پورا ماجرا بیان کر دیا ۔

حکیم صاحب بہت سمجھدار تھے اس نے کہا بیٹی تم گھبراؤ نہیں میں تمہیں دوائی تو دے دیتا ہوں لیکن ایک بات یاد رکھنا اگر میں نے تمہیں ایسی دوا دے دی جو فوراً کام کر جائے تو تمہارا نام لگ جائے گا کہ تم نے ہی بڑھیا کو قتل کیا ہے ، زینت نے کہا بات تو آپ کی ٹھیک ہے ، تو حکیم صاحب نے کہا ایسا کرتا ہوں میں تمہیں ایسی دوا دیتا ہوں جو صلح کام کرے گی اور اس دوا کو استعمال کرنے میں ایک سال لگ جائیں گے اور اس ایک سال میں بڑھیا اندر سے اتنا کھوکھلا ہو جائے گی ، اور اسے ایسا مرض لگ جائے گا جس سے وہ اتنی کمزور ہو جائے گی کہ وہ مر ہی جائے گی ۔

لڑکی بہت خوش ہوگئی اور کہنے لگی اچھا آپ مجھے وہ دوا دے دیں ، حکیم جی نے ایک دوا دی اور کہا کہ اسے تم اپنی ساس کو وقتاً فوقتاً کھلاتے رہنا اور اس ایک سال کے عرصے میں وہ کھوکھلا ہو کر مر جائے گی اور بڑھیا سے ہمیشہ کے لیے تمہاری جان چھوٹ جائے گی ۔

زینت بہت زیادہ خوش ہوگئی اور سوچنے لگی اب تو اس بڑھیا سے میری جان چھوٹ جائے گی اور میرا مسئلہ حل ہو گیا ، لیکن حکیم صاحب نے لڑکی کو جاتے جاتے ایک مشورہ اور دیا اور کہا کہ دیکھو اب تو یہ کام تم خود کرو گے تو دنیا تمہیں مجرم نہ سمجھے اس کے لئے تمہیں اب بڑھیا کے اور زیادہ قریب ہونا پڑے گی ان کی خدمت کرنا پڑے گی ان کو اپنا بنانا پڑے گی تاکہ جب بڑھیا مرجائے تو دنیا والے تم پر شک بھی نہ کرے اور بلکہ یہ کہے کہ تم تو بڑھیا کی خدمت کرتی تھی ، بڑھیا کا خیال رکھتی تھی ، بڑھیا کو خوب مانتی اور چاہتی تھی ۔

حکیم صاحب کی یہ بات بھی لڑکی کو اچھی لگی اور پھر وہاں سے وہ گھر آگئی ، گھر آ کر وہ دوا بھی بڑھیا کو کبھی کبھی دینے لگی لیکن اس کے اندر تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ اپنی ساس کی ہر بات سننے اور ماننے لگی اس کے قریب ہو گئی ، بڑھیا کو اپنا بنانے لگی اور بلکہ ہر کڑوی اور کسیلی باتوں کو بھی خوشی خوشی سننے لگی اور دل ہی دل میں یہ سوچنے لگی کہ اب تو بس بڑھیا ایک سال کی مہمان ہے اس کی تلخ اور کڑوی باتیں بھی ایک سال سن لیں گے تو کیا ہوگا پھر ایک سال بعد تو بڑھیا سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑے گا ہی ۔

چنانچہ اس ایک سال کے عرصے میں زینت نے بڑھیا کی بہت خدمت کی اسے اپنا بنا کر رکھا اس کا پہلے سے کچھ زیادہ ہی خیال رکھنے لگی جس کی وجہ سے شوہر بھی بہت خوش تھا گاؤں والے اور پڑوسی بھی ، رشتے دار بھی بہت خوش ہوئے یہاں تک کہ بڑھیا بھی اس سے محبت کرنے لگی ۔

لیکن جب ایک سال پورے ہونے والے تھے تو وہ تنہائی میں بیٹھ کر سوچتی کہ اب اس کی ساس مر جائے گی اور اب اس کی ساس ان سب لوگوں سے ہمیشہ ہمیش کے لئے جدا ہو جائے گی تو وہ یہ سوچ کر تنہائی میں بہت روتیں ، بہت دکھی ہوتیں اور بہت پریشان ہوتیں ۔

اب اسے خوش ہونے کے بجائے غم ہوتا چونکہ اب اسے اپنی ساس سے قریب ہونے کی وجہ سے محبت ہوگئی تھیں اور پھر ایک سال پورے ہونے کے وقت وہ حکیم صاحب کے پاس گئیں اور حکیم صاحب کے پاس رونے اور گڑ گڑانے لگیں اور کہنے لگیں حکیم صاحب میری ایک مرتبہ اور مدد کریں اور وہ یہ کہ مجھے کوئی ایسی دوا دیں جس سے میں اپنی ساس کی جان بچا سکوں جو زہر (دوا) میں نے اب تک کھلائی ہے اس زہر کو ختم کرنے کی اب کوئی دوا دے دیں تاکہ میں اپنی ساس کی جان بچا سکوں کیونکہ اب وہ میرے بہت قریب آگئی ہیں اب وہ مجھے ماننے اور چاہنے لگی ہیں مجھے بھی اب ان سے محبت اور ہمدردی ہو گئی ہے میں اب نہیں چاہتی کہ میری ساس فوت ہو ۔

چنانچہ حکیم صاحب نے جب لڑکی کی گریہ و زاری دیکھی تو حکیم صاحب نے بتایا : کہ میں نے تمہاری ساس کو زھر نہیں دیا تھا بلکہ یونہی ایک نارمل سی دوا دے دی تھی تاکہ تمہارا دل مایوس نہ ہو اور تمہارے دل کو تسلی ہو کہ زھر دی جا رہی ہے لیکن جو میں نے تمہیں نصیحت کی تھی کہ ساس کی خدمت کرو اس کا خاص خیال رکھو اور اس کو اپنے سے قریب کرو اصل دوا تو یہ تھی ۔

زینت کی آنکھوں میں پھر آنسوں آگئے اور یہ آنسوں غم کے نہیں بلکہ خوشی کے تھے ۔ حکیم صاحب نے کہا تمہاری ساس ابھی نہیں مرے گی بلکہ وہ اپنی طبعی زندگی گزارے گی ۔

خلاصہ کلام: ساس پہلے بھی بہو (زینت) کی بھلا چاہتی تھی اور اب بھی بھلا چاہتی تھی لیکن لڑکی (زینت) اس کی بات ہی نہیں سننا چاہتی تھی ساس پہلے جب کڑوی کسیلی سناتی تھیں تو بہو کو بہت کچھ سکھانا چاہتی تھی لیکن چونکہ بہو کو لگتا تھا یہ مجھے کوستی ہیں طعنے دیتی ہیں اور مجھ سے دشمنی کرتی ہیں اور پھر جب حکیم صاحب کے کہنے پر ساس کی ہر طرح کی باتوں کو برداشت کیا تو ساس کے دل میں بھی بہو زینت کی محبت بیٹھ گئی اور وہ بھی اسے بیٹی کی طرح ماننے اور چاہنے لگ گئیں پھر ان دونوں ساس بہو کی محبت ، مثالی محبت ، بن گئی ۔

حکیم مفتی اشرف علی شیخ قاسمی ، ماہر معدہ و جنسیات مرد و خواتین ، رابطہ نمبر: 9870967815
8755152470

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button