طب و حکمت

اِیک 35 سالہ لڑکی کی فریاد ۔

اِیک 35 سالہ لڑکی کی فریاد ۔
تحریر: عارضی نام: کشش کوثری ۔

میری عمر اس وقت 35 سال ہے ، میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی بلکہ میں ابھی 35 سال کی عمر میں بھی کنواری ہوں کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے ۔خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی کسی کا خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا ۔ یہ سب بول کر سبھی ہنستے ، مسکراتے ہیں اور انانیت کے ساتھ اپنی اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں ۔
عمر کے 35ویں سال میں پہنچ چکی ہوں اب تک میرے لئے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جب کہ غیر خاندانوں سے کئی سارے رشتے آئے لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے بات بھی کی ہو ۔ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کی ناک کٹ جائے گی ، خاندان میں ان کی ناک نیچی ہو جائے گی ۔

میرے دلی جذبات کبھی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ میں راتوں میں روتی اور گڑ گڑاتی ہوں ، میرا دل کرتا ہے کہ میں چیخ چیخ کر آسمان کو اپنے سر پر اٹھالوں اور دھاڑیں مار کر والدین سے یہ کہوں کہ میرا گزارہ نہیں ہورہا خدارا میری شادی کرادیں اگرچہ کسی کالے کلوٹے چور سے ہی صحیح ۔ لیکن حیاء اور شرم کا پردہ یہ سب کچھ کرنے سے مجھے روک دیتا ہے ، جس کی وجہ سے میں چپ ہوجاتی ہوں ۔
میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ نعش (لاش) بن گئی ہوں ۔ میں اندر سے اس ٹینشن کی وجہ سے کھوکھلا ہو گئی ہوں ۔
شادی بیاہ وتقریبات میں جب اپنی ہمچولیوں کو ، سہیلیوں کو اُن کے خاوندوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے دردوں کی ٹیسیں اٹھتی ہیں ۔ دل میرا اندر سے ترستا ہے ، اور سسکیاں لیتی ہوں اور میری آنکھیں بھر آتی ہیں ، یا خدا ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے رسم و رواج کو نبھاکر ، اپنی ناک کی خاطر، اپنی انانیت کے لئے اپنی بچیوں کی زندگیاں برباد کردیتے ہیں ۔ اور بچیاں کبھی تو اس طرح سے گھٹ گھٹ کر مریضہ بن جاتی ہیں کبھی گناہ کر بیٹھتی ہیں جس کے ذمے دار والدین ہوتے ہیں ، اور کبھی تو اتنی مشکل زندگی کی وجہ سے موت ہی حصّے میں آ جاتی ہے ۔

کبھی خیال آتا ہے کہ گھر سے بھاگ کر کسی کے ساتھ منہ کالا کر کے واپس آکر والدین کے سامنے کھڑی ہوجاؤں کہ لو اب اچھی طرح نبھاؤ اپنے سات پشتوں کا رسم و رواج ۔
کبھی خیال آتا ہے ہے کہ گھر سے بھاگ جاؤں اور کسی سے کہوں مجھے بیوی بنالو لیکن پھر خیال آتا ہے اگر کسی برے انسان کے ہتھے چڑھ گئی تو میرا کیا بنے گا ۔
میرے درد کو مسجد کے مولانا صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتے ۔
اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن : رات کو جب ابا حضور اور اماں ایک کمرے میں سو رہے ہوتے ہیں بھائی اپنے اپنے کمروں میں بھابیوں کے ساتھ آرام کر رہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف اور صرف میں ہی جانتی ہوں تم لوگ اس بات کو کبھی نہیں سمجھ سکتے کیونکہ تم نے تو شاید اس چیز کو کبھی بھگتا ہی نہیں۔

اے حاکمِ وقت : تو بھی سن لے سیدنا حضرت فاروق اعظم کے زمانے میں رات کے وقت جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ گشت فرما رہے تھے تو ایک گھر کے پاس سے گزر ہو رہا تھا تو اس گھر کی ایک عورت نے جب درد کے ساتھ یہ اشعار پڑھے تھے جن کا مفھوم یہ تھا ۔

(اگر خدا کا خوف اور قیامت میں حساب دینے کا ڈر نہ ہوتا تو آج رات اِس چارپائی کے کونوں میں ہل چل ہوتی) (مطلب میں کسی کے ساتھ کچھ کررہی ہوتی ، اور یہ رات لمبی ہوگئی ہے اور اس کے کنارے کالے پڑگئے اور مجھے اس وجہ سے نیند نہیں آرہی کہ میرا کوئی محبوب نہیں جس سے میں کھیلوں‘‘۔) فاروق اعظم نے جب اشعار سنے تو تڑپ اٹھے اور ہر شوہر کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ کوئی بھی شوہر اپنی بیوی سے تین مہینے سے زیادہ دور نہ رہے ۔

اے حاکمِ وقت ۔
اے میرے والد بزرگوار۔
اے میرے قاضی شہر اے مفتی اعظم ۔
اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب ۔
اے میرے شہر کے پیر صاحب : اے قاضی شہر: میں کس کے ہاتھوں اپنا لہو تلاش کروں؟

کون میرے درد کو سمجھے گا؟
میں ایک لڑکی ہوں اور میری عمر کے 35 سال گزر گئے (حالانکہ لڑکیوں کی عمر 15 سال ہو جائے تو شادی کرا دینی چاہیے اور 35 یا زیادہ سے زیادہ 40 سال تک عورتیں جوان رہتی ہیں پھر اس کے بعد تو عورتوں کا بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے اور اسی عمر میں ایک عورت کی جنسی خواہشات عروج پر ہوتی ہیں اور وہ صحت مند ہوتی ہیں، بچوں کو جننے کی عمر بھی یہی ہے) لیکن میرے والد بزرگوار کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا ۔
۔
اے اللہ تو گواہ رہنا کیونکہ تو دیکھ رہا ہے ، بے شک تونے میرے لئے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھر والوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیئے ، اب چند سالوں بعد میرے والد محترم تسبیح پکڑ کر یہی کہیں گے کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا ۔

لڑکی کا سوال تمام دنیا والوں سے: کہ اے لوگوں : مجھے یہ بتاؤ کہ کسی آدمی کے سامنے تیار شدہ کھانا کھانے کے لیے رکھا گیا ہے لیکن وہ کھانا نہ کھائے اور یہ کہے کہ میرے تقدیر میں ہی یہ کھانا نہیں لکھا تھا، بتائیں یہ بے پاگل پندی و وقوفی ہے یا عقلمندی؟

کیا اللہ تعالیٰ نوالے کو منہ میں خود بخود ڈلوا دے گا یا آپ کو بھی کچھ حرکت کرنے چاہیے؟

آپ یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں : کہ میرے اور میرے جیسی کئی اوروں کےلئے اللہ نے اچھے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بھائی وغیرہ نے خود ہی ان رشتوں کو ٹھکرا دیئے ، اور اب یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ اجی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا ، یہ تو سراسر غلط بات ہے ، آپ نے کبھی چاہا ہی نہیں تو پھر تقدیر یا قسمت کو بدنام کیوں کرتے ہو؟؟؟

دوستوں: اس لڑکی کا دکھڑا اور دل کا درد بڑا سبق آموز ہے ، آج کے اس دور میں ماتحت افراد کو گناہ گار بہت آسانی سے بنا دیا جاتا ہے لیکن اکڑ اور تکبر کی وجہ سے یا کہ سکتے ہیں کہ غیر دینداری کی وجہ سے کسی بھی چیز کو لے کر صلح کرنا نہیں چاہتے بلکہ اسے عیب سمجھتے ہیں ۔ اور اپنی ناک کے لئے اچھا یا برا کچھ بھی کر گزرتے ہیں ۔

میرے پیاروں: یہ کوئی کہانی یا قصہ نہیں بلکہ یہ ایک بر صغیر کی لڑکی کا دکھڑا ہے جسے نہ باپ سن رہا ہے ، نہ بھائی سن رہا ہے اور نہ حکم وقت یا امام مسجد سمجھ رہا ہے ۔

حکیم اشرف علی شیخ قاسمی ، ماہر معدہ و جنسیات مرد و خواتین ۔ رابطہ نمبر: 9870967815
8755152470

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button